سریل نمبر:14460101

24/10/2024
مفتی محمد اکمل قادری

کیا فرماتےہیں علمائے کرام ومفتیانِ دین اس مسئلہ کےبارے میں کہ بینک کلائنٹ(رقم رکھوانے والے)کو ایک کارڈ ڈیبٹ گولڈ وغیرہ جاری کرتے ہیں،اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہےکہ کلائنٹ اگر کسی خاص جگہ سےخریداری کرے تو اس کی خریدی ہوئی شے کےعوض بینک کچھ رقم ادا کردیتا ہے... یوں ہی وہ ڈسکاؤنٹ کمپنی، ہوٹل،سٹور وغیرہ کی جانب سےبھی ہوسکتا ہے۔کلائنٹ کو ملنےوالا ڈسکاؤنٹ حلال ہےیا حرام؟

جواب

جوابِ شرعی سےپہلےچند امور کی وضاحت کی جاتی ہےتاکہ جواب سمجھنا آسان ہوجائے۔

بینکوں کا اپنےمعاملات کےحوالےسے طریقہ وقتاًفوقتاًتبدیل ہوتا رہتا ہے، ناظرین جوابِ شرعی کو دار الافتا میں دیےگئے سوال کےتناظر میں ہی ملاحظہ فرمائیں۔

ڈیبٹ کارڈ (Debit Card) کےاستعمال کےبارے دستیاب معلومات یہ ہیں:

(۱) بینک کی جانب سے ڈیبٹ کارڈ ایک ایسا کارڈ ہےکہ جس شخص نےاپنی رقم بینک میں کرنٹ اکاؤنٹ (کسی نفع ونقصان کےبغیر والےکھاتے)میں جمع کروائی ہوتی ہے،یہ کارڈ اس کلائنٹ (بینک میں رقم جمع کروانےوالے)کو جاری کیا جاتاہے،اس کارڈ میں کلائنٹ کےاکاؤنٹ میں رقم موجود ہونا ضروری ہوتا ہے۔رقم موجود نہ ہونےکی صورت میں یہ کارڈ سٹور وغیرہ سےاشیا کی خریداری کےحوالے سےکار آمد نہیں ہوتا، اس کارڈ کےذریعےجو شے بھی خریدی جائےگی ،اس کی قیمتِ خرید موقع پر ہی بذریعہ کارڈ لےلی جاتی ہے۔

(۲) جو بینک خواہ اسلامی نام سے یا سودی نظام کےساتھ کام کر رہے ہیں،دونوں میں ہی نفع ونقصان(سیونگ اکاؤنٹ ) کی بنیاد پر لوگوں کورقم جمع کروانا جائز نہیں ہے۔

(۳) ضرورت کی بنیاد پر بینک میں کرنٹ اکاؤنٹ میں اپنی رقم جمع کروائی جاسکتی ہے۔

(۴) ایک ذمہ دار کا کہنا ہےکہ بینک کی جانب سے ڈیبٹ کارڈ کے حامل کو ڈسکاؤنٹ ملتا ہے۔

(۵) تحقیق سےمعلوم ہوا ہےکہ بینک کی جانب سے کلائنٹ کو ڈسکاؤنٹ ملنا مشروطاً، معہودًایا عرفًا لازم ہے۔

اب ڈیبٹ کارڈ(Debit Card) کےمتعلق تین جواباتِ شرعیہ کو ذکرکیا جاتا ہے،ڈیبٹ کارڈ جن شرائط کےساتھ استعمال میں لانےکی اجازت ہے،کلائنٹ اسی کےپیشِ نظر جوابِ شرعی کو ملحوظِ خاطر رکھے۔

(1) بینک کےکلائنٹ کو ڈیبٹ کارڈ کسی بھی ڈسکاؤنٹ و آفر کےبغیر مطلقاً استعمال میں لانا جائز ہے،البتہ اگر بینک کی جانب سے حامل کارڈ (Card holder)کو کسی دوسری جگہ سےاشیا کی خریداری کرنے پر ڈسکاؤنٹ دیا جاتاہےتو کلائنٹ کو خریداری پر بنک کی طرف سےملنےوالی آفرو فائدہ لینا حلال نہیں؛ کہ بینک کےپاس کلائنٹ کی اصل رقم بطورِ قرض ہےجبکہ قرض پر قرض دہندہ(کلائنٹ ) کو مشروطاً یا معہوداً یا عرفاً نفع لینا سخت حرام ہے،جب کہ بینک کلائنٹ کو پہلےسےمعلوم ہےکہ ڈیبٹ کارڈ کےذریعے فلاں ،فلاں جگہ سے خریداری کرنےکی وجہ سےبنک مجھے اپنا کلائنٹ ہونےکی بنا پر فائدہ دےگاتو کلائنٹ بینک سےمشروطاً ، معہوداً قرض پر نفع لےکر سودخورو حرام کار قرار پائے گا۔

(2) اگر بینک کے بجائے کوئی کمپنی،ہوٹل ،شاپ وغیرہا کےاصل مالکان کی طرف سے حامل کارڈکو ڈسکاؤنٹ ،آفر دی جائے تو کلائنٹ کےلیے اس صورت میں آفر لینا جائز وحلال ہےکہ کمپنی اپنی شے کو جس قیمت پر فروخت کردے، پھر اپنی مرضی سے اس قیمت پر رعایت دےدے تو شرعاً یہ صورت جواز پر مبنی ہے۔

(3) اگر بینک کے علاوہ ڈیبٹ کارڈ بنانے والی کمپنی اپنےکارڈ ہولڈر کو ڈسکاؤنٹ مہیا کرےتو اس صورت میں بھی کارڈ ہولڈر کےحق میں ڈسکاؤنٹ وآفر لینا جائز وحلال ہے؛کہ ڈسکاؤنٹ وآفر کارڈ ہولڈر کےحق میں کمپنی کی جانب سےتبرع واحسان ہوگا، جب کہ قرض کا معاملہ کلائنٹ وبینک کےدرمیان ہےنہ کہ کمپنی وہوٹل کےمالکان وغیرہم کےدرمیان قرار پایا ہے۔

دلائل شرعیہ

اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ-وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ-فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَؕ-وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِؕ-وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ

کتبہ وحرر

مفتی محمد اکمل قادری

شعبہ: دار الافتاءوالتحقیق جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور