سریل نمبر:00035

01/02/2024
مفتی محمد اکمل قادری رضویزکوٰۃ

کیا فرماتےہیں مفتیانِ کرام اس بارےمیں کہ میری بہن کا نکاح یوں ہوا کہ نکاح خواں نے بذریعہ موبائل فون کال میری بہن سے وکالتِ نکاح لی، پھر نکاح کےالفاظ اس طرح ادا کیے کہ اُن الفاظ کی ادائیگی کو گواہان موبائل فون پر سماعت کر رہےتھے،جب کہ گواہان نکاح کی مجلس میں موجود نہ تھے۔ کیا میری بہن کا نکاح شریعت کے اصولوں کی روشنی میں صحیح وجائز ہوگیا ہےیا نہیں ؟راہ نمائی فرمادیں۔

جواب

نکاح کےنافذ وتام ہونےکی شرائط میں سےایک شرط یہ بھی ہےکہ نکاح کےمتعلق ایجاب وقبول کی مجلس ایک ہی ہواور گواہان بھی ایجاب وقبول کوایک ہی مجلس میں سماعت کریں اورگواہان ان الفاظ سےفریقین میں نکاح ہونا سمجھیں ۔

اگر سائل کا سوال نامہ صداقت وحقائق پر مبنی ہے ؟تو مسئولہ صورت میں ذکرکردہ طریقہ کار کی روشنی میں آسیہ انور کا نکاح مذکور شخص کےساتھ صحیح و درست نہیں ہواکہ گواہان نکاح کی اس مجلس میں موجود نہ تھے جس میں فریقین کی طرف سےنکاح کےالفاظ پر ایجاب وقبول کیا گیا ہےاگرچہ گواہان موبائل فون کی کال پر بلاواسطہ نکاح کےکلمات (ایجاب وقبول )سماعت کررہےتھےلیکن گواہوں کی ایسی سماعت کوشرعاً وعرفاً ایک مجلس قرار نہیں دیا گیا۔

لہذا فریقین(آسیہ انوراور مذکور شخص ) پر لازم ہےکہ ایک دوسرے سے فی الفور الگ ہوجائیں اور اگر نکاح کو درست کرنا چاہتے ہیں تو نکاح کی شرائط وضوابط کا لحاظ کرتےہوئے دوبارہ نکاح کریں پھر ایک دوسرےکےلیےحلال ہوں گے وگرنہ سخت گناہ گاہ ہوں گے۔

درمختار میں ہے:" ینعقد بایجاب وقبول وشرط حضور شاھدین حرین ا وحر وحرتین مکلفین سامعین قولھمامعاً علی الاصح فاھمین انہ نکاح علی المذھب بحر"۔ دومردوں یا ایک مرد دو عورتوں کی موجودگی میں جو کہ عاقل بالغ اور حرہوں اور انھوں نے لڑکے لڑکی کاایجاب وقبول ایک مجلس میں سنا ہو تو نکاح ہوجائیگا بشرطیکہ ان گواہوں نے اس کو نکاح سمجھاہو، مذہب یہی ہے، بحر، اھ ملخصا۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (رد المحتارمع الدرالمختار:کتاب النکاح،ج۴،ص۹۸،۹۹،۱۰۰،المکتبۃ الرشیدیۃ کوئٹہ )

شیخ الاسلام والمسلمین سیدنا امام احمد رضاخان علیہ الرحمہ نےتحریر فرمایا:"نکاح کے لیے فقط مرد وعورت کا ایجاب وقبول چاہئے اور دو مرد یا ایک مرد دوعورتوں کا اسی جلسہ میں ایجا ب وقبول کو سننا اور سمجھنا کہ یہ نکاح ہو رہا ہے،بس اسی قدر درکار ہے، اس سے زیادہ قاضی وغیرہ کی حاجت نہیں"۔(فتاوٰی رضویہ:ج۱۱،ص۱۸۱)

سوال کا جوابِ شرعی سائل کےسوال نامہ کی روشنی میں ذکر ہوا ہے،اگر سوال نامہ صداقت وحقائق پر مبنی ہےتو مسئلہ کا جواب واضح کردیا گیا ہےاور اگر سائل مذکورنے جھوٹ سےکام لیا تو جھوٹ و الزام لگانےکا وبال سائل پر ہو گا کہ مفتی کا کام سوال کےمطابق جواب دینا ہوتا ہےنہ کہ گھر،گھر ،قریہ ،قریہ ،شہر،شہر جاکر اصل حقائق کو پرکھنا بلکہ یہ ذمہ داری تو شرعاً قاضئ شرع کی ہے۔

دلائل شرعیہ

وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةًؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ

کتبہ وحرر

مفتی محمد اکمل قادری رضوی

شعبہ: دار الافتاءوالتحقیق جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور